محبت کا آخری سفر
محبت کا آخری سفر از پری وش تالپور قسط نمبر4
"اس کی سوچ کے عین مطابق آریان کی گاڑی روڈ پر کھڑی روز کی طرح اسی کی منتظر کھڑی تھی مگر اب حالات بدل چکے تھے عائشہ نے بنا کوئی تاثر چہرے پر لائے آگے بڑہ گئی اسی طرح جس طرح کل آریان ل تعلق بنا کھڑا تھا" " وہ خاموشی سے اسٹاپ کی طرف بڑہ گئی بس کے انتظار میں ، آریان نے گاڑی اس کے سامنے لاکر کھڑی کی مگر وہ متوجہ نا ہوئی" "آریان گاڑی سے باہر آیا " "میں آپ سے" "اس نے کہنا چاہا مگر بول نہیں سکا" "میں آپ سے شرمندہ ہوں کیا آپ مجھے معاف کر سکتی ہیں" "اس نے بولا تو عائشہ کو اس کے لہجے پر کہیں بھی شرمندگی کے آثار نظر نہ آئے" "کیا ہم دوست نہیں رہ سکتے " "اس نے نقاب سے ڈھکے چہرے سے سوال کیا تو جو قہر عائشہ کی آنکھوں سے برسا اسے دیکھ کر خاموش ہوگیا " "اپنی گاڑی لو اور نکلو ہمیشہ کے لیے میری نظروں سے ورنہ اگر میری زبان کھل گئی تو زندگی میں میرے لفظ بھلا نہیں سکو گے" "اس نے اپنی وحشت کو باہر نکالا " "تم اکیلی ہو عائشہ اور میں نہیں چاہتا کے یے دنیا تمہیں اکیلا سمجھ کر لوٹ لے اور اکیلے لوگوں کے لیے خاص کر لڑکیوں کے لیے یے دنیا جینا دوبہر کر دیتی ہے میں نے چھوٹ بھی اسی لیے بولا کہ تم اکیلی ہو میری تھوڑی توجہ پر خوش رہوگی اور ایسا ہوا بھی میں نے کوئی غلط حرکت کرنے کا سوچا بھی نہیں نہ میں ایسا بندہ ہوں مجھے تم سے محبت نا سہی مگر ہمدردی کا رشتہ ضرور ہے تمہیں تمہارے اپنے کتنا ٹارچر کرتے ہیں انہیں تمہارے ہونے نہ ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہے میں تمہارے دکھ کو سمجھتا ہوں تم میری ایک اچھی دوست ہو آو گاڑی میں بیٹھو کالیج کے لیے لیٹ ہو رہی ہو " "اس نے اپنے آپ کو اتنی وضاحتوں سے پاک و صاف کیا کہ عائشہ حیرت میں پڑگئی " "حیرت کی بات ہے مرد کس طرح سے اپنے آپ کو کس طریقے سے ہر الزام سے پاک کر دیتا ہے میں اکیلی ضرور تھی مگر کوئی بے جان مورت نہیں تھی جس کے دل سے تم کھیلتے رہے اور اپنا دل کہیں اور رکھ کر اسے اپنا چکے تھے اگر تمہیں دوست بننا تھا تو پہلے بھی یہی کہتے مگر پہلے جب تم آئے میرے پاس تب تو تمیں نہیں پتا تھا میں اکیلی ہوں تم نے تو شروع میں ہی محبت کا نام لیا دوستی کی آفر تو تم نے کی ہی نہیں تھی اور پھر یے بات تو میں نے تمہیں دوسرے دن بتائی کے میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے تمہیں اب یے بات یاد آرہی ہے کے میں اکیلی ہوں مجھے سہارے کی ضرورت ہے اور اب تم مجھے محبت کا سہارا دے کر دوستی کے سہارے پر آگئے ہو اگر یے دنیا اکیلے لوگوں کو ڈس لیتی ہے تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ لو بیوقوف کون بناتا رہا" "عائشہ غصے سے اس برس پڑی" "اس بار سامنے والا کچھ بول ہی نہیں سکا" "آخر کب تک لڑکیوں کو بیوقوف بناکر کھیلتے رہو گے کب تک ان کے معصوم دل سے اپنے جھوٹے دل بھلاتے رہو گے سچے جذبوں کی قدر تو ہوتی ہی نہیں ہے دوسروں کو چلے ہیں سہارا دینے یا پھر لڑکیوں کی سچی محبتوں سے کھیلنے ذرا جواب دو آخر کیوں " "عائشہ نے اپنے ہاتھ بازوں میں باندہ کر تیز لہجے میں کہا" تم جیسا سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے "وہ مکر گیا عائشہ اس کے ایک بار پھر صاف مکر جانے پر حیرت زدہ ہوگئی "